منگل، 2 اپریل، 2019

کیا داعش کا خاتمہ ہو چکا ہے؟



تحریر: محمد ثناءاللہ طاہر
شدت پسند تنظیم ’دولۃالاسلامیۃ فی العراق و الشام (داعش)‘ ایک وقت میں شمال مشرقی شام سے لیکر شامی و عراقی سرحدی علاقوں اور مشرقی عراق تک کے وسیع رقبے پر قابض تھی۔ عراق کے چار بڑے شہر موصل، تکریت، فلوجہ اور طل افعار سمیت شام میں رقہ اور دیر الزور کے بڑے علاقے اس کے زیرِ نگیں تھے۔ ان مقبوضہ علاقوں میں تیل و گیس کے ذخائر، ڈیم، شاہراہیں، انتظامی دفاتر، عسکری تنصیبات اور سرحدی چوکیاں داعش کے قابو میں تھیں۔ 2014 کے وسط تک عراق و شام کے تقریباً چونتیس ہزار (34000) مربع میل اور اس کے سوا کروڑ (12 ملین) باسیوں پر داعش کا حکم چلتا تھا۔ داعش کے ذرائع آمدن میں خلیجی ریاستوں کے مخیر حضرات  سے ملنے والے چندے کے علاوہ تیل و گیس کی ناجائز فروخت، لوٹ مار، بھتہ خوری، راہزنی، اغوا برائے تاوان اور قیمتی و تاریخی نوادرات کی فروخت شامل تھی۔ اس کے جنگجوؤں کی تعداد مختلف اندازوں کے مطابق 30 سے 50 ہزار تھی۔ اس کے ہتھیاروں کے ذخائر میں ٹرکوں پر لگی مشین گنز، راکٹ لانچر، طیارہ شکن بڑی توپیں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل موجود تھے۔ اس کے جنگجو شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینے ہوئے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے لیس تھے۔ دولت کی فراوانی، بربریت کے نئے نئے طریقوں، عددی قوت میں مسلسل اضافے اور وسیع و عریض علاقے پر قبضے نے داعش کو دنیا کا امیر، طاقتور اور سفاک ترین جنگجو گروہ بنا دیا تھا۔ داعش کی خودساختہ ریاست جسے وہ ’دولۃ الاسلامیۃ‘ یعنی Islamic State یا  ’ریاستِ اسلامی‘ کا نام دیتی تھی اور اس کی تشہیر ’خلافت‘ کے طور پر کر رہی تھی‘ اسے خراسان یعنی افغانستان، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا تک وسعت دینے کا نہ صرف عزم ظاہر کیا بلکہ اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے جنگجو بھرتی کیے گئے۔
پھر وقت کا دھارا بدلا اور 2014 کے اختتام پر داعش کی یہ خودساختہ ریاست  سمٹنا شروع ہوگئی۔ آج چار سال کے بعد داعش اپنے تمام زیر قبضہ علاقوں سے محروم ہوچکی ہے اور اس کی ریاست  کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ داعشی ریاست یعنی  ’دولت اسلامیہ‘ کے انہدام کو داعش کی شکست کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈاؤنلڈ ٹرمپ کے بقول انہوں نے داعش کے مقابل جنگ جیت لی ہے اور مقبوضہ علاقے سے داعش کی عملداری ختم کر دی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ سچ ہے؟ کیا واقعی داعش کو شکست دی جاچکی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک اورسوال سامنے آتا ہے کہ کیا جنگجو تنظیم داعش کا خاتمہ واقعی اس قدر آسان کام ہے۔۔۔؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کی عملداری ان تمام علاقوں سے ختم ہوچکی ہے جن پر کبھی اس کا حکم چلتا تھا‘ اسی وجہ سے امریکی صدر اور ان کے اتحادی ممالک داعش کی مکمل شکست کا دعویٰ کر رہے ہیں مگر کیا داعشی راج کے خاتمے کو داعش کا خاتمہ مان لیا جائے؟ مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والی صحافی اور دانشور‘ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز کی رکمنی کالیماکی (Rukmini Callimachi) ’دولتِ اسلامیہ‘ کے انہدام کو داعش کی شکست نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں اگرچہ داعش کی حکمرانی ختم ہوچکی ہے مگر داعش کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ اس لیے یہ  خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ زیرقبضہ علاقوں سے محروم ہونے کے بعد داعش اپنے جنگجوؤں کو چھاپہ مار کاروائیوں (Guerrilla Warfare) کی طرف راغب کرے گی۔  یہ  خدشہ بلاجواز نہیں بلکہ داعشی جنگجوؤں کی عسکری تربیت، مشرقِ وسطیٰ میں موجود مسلکی کشمکش، جمہوریت کا فقدان، ناقص طرزِ حکمرانی اور عالمی طاقتوں کے مفادات اس خدشہ کی ٹھوس بنیادیں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ داعش دنیا کے مختلف خطوں میں پہلے ہی چھاپہ مارکاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے جس کے سبب عراق اور شام میں اس کے لیے ایسا کرنا دشوار نہیں ہوگا۔

حال ہی میں امریکی  صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی نعرے کے مطابق شام میں داعش کے خلاف برسرِپیکار امریکی فوجیوں کو جلد واپس بلانے کا اعلان کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں دولتِ اسلامیہ کے انہدام (جسے وہ داعش کی شکست یا اسکا خاتمہ قرار دیتے ہیں) کے  بعد امریکی فوجیوں کے شام میں رکنے کی کوئی وجہ نہیں رہی۔  داعش کے خاتمے کا زعم اپنی جگہ مگر مشرقِ وسطیٰ کے حالات اور داعش کا تاریخی پس منظر دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کا زعم اور فیصلہ زمینی حقائق سے مختلف معلوم ہوتا ہے۔
داعش کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا قیام القاعدہ کی شاخ ’القاعدہ فی العراق‘ یا AQI کے غیرفعال ہونےکے بعدعمل میں آیا تھا۔ 2003 میں جب امریکہ نے عراق پر دھاوا تو اسے  سب سے زیادہ  مزاحمت کا سامنا ابو مصعب الزرقاوی کی ’القاعدہ فی العراق‘ کی طرف سے کرنا  پڑا تھا۔ یہ عراق میں سنی جنگجوؤں کا ہراول دستہ تھا۔ ’القاعدہ فی العراق‘ کی مسلح کاروائیوں کا نشانہ بننے والوں میں امریکی فوجیوں کے ساتھ عراق کی شیعہ آبادی بھی شامل تھی۔ 2006 میں الزرقاوی کی وفات ہوئی تو ’القاعدہ فی العراق‘ غیرفعال ہوگئی اور اس کے جنگجوؤں نے ’دولت الاسلامیۃ فی العراق‘ کے نام سے نئی تنظیم قائم کی اور عراقی مزاحمتی گروہوں کو اس کے پرچم تلے اکٹھا کیا۔ میدانِ جنگ میں مسلسل برسرِپیکار رہنے اور امریکی و عراقی افواج کی پیہم کاروائیوں کی وجہ سے ’دولت الاسلامیۃ فی العراق‘ کمزور ہوتی گئی، یہانتک کہ 2009 تک اس کی مسلح کاروائیوں کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اسی عرصے میں جہاں ایک طرف عراقی و امریکی فورسز مسلح تنظیموں کی طاقت توڑ رہی تھیں وہیں دوسری طرف وزیراعظم نوری المالکی کی حکومتی پالیسوں کے سبب عراقی معاشرے میں شدید بےچینی پیدا ہوچکی تھی۔ ملک میں کرپشن، بیروزگاری اور جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی تھی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت دن بدن کمزور ہو رہی تھی۔ 2008 میں نوری المالکی نے امریکیوں سے Status of Forces نامی معاہدہ کیا جس میں طے کیا گیا کہ تمام امریکی فوجی دسمبر 2011 تک عراق سے چلے جائیں گے۔ یہ وقت تھا جب القاعدہ فی العراق کے زیادہ تر جنگجو یا تو مارے جا چکے تھے یا عراقی جیلوں میں قیدتھے۔ امریکی اداروں کے مطابق امریکی فوجیوں کے انخلاکے وقت عراق میں ’القاعدہ فی العراق‘ کے محض 700 جنگجو تھے۔ امریکی فوجیوں کے انخلا اور عراقی حکومت کمزوریوں نےان بچے کھچے جنگجوؤں کو دوبارہ اکٹھا ہونے کی تحریک دی۔ ادھر 2011 میں شام کے اندر  خانہ جنگی شروع ہو گئی جس  نے ان کے لیے ماحول مزید سازگار بنا دیا۔ یہ گروہ منظم ہوا اور 2012 میں ابوبکر البغدادی کی قیادت میں ایک بار پھر منظرِ عام پر آیا۔ انہوں نےعراق و شام میں خلافت کے قیام کو اپنا مقصد بتاتے ہوئے خود کو ’دولت الاسلامیۃ فی العراق و الشام‘ یا داعش کے طور پر متعارف کروایا۔ دنیا بھر سے جنگجو بھرتی کرنے کے ساتھ 2012 اور 2013 میں اس گروہ نے بطورِ خاص عراقی جیلوں پر حملے کیے اوراپنے ہزاروں جنگجو آزاد کروائے۔ 29 جون 2014 کو داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے تنظیم کے زیرِ قبضہ علاقوں کو ’دولت الاسلامیۃ‘ کا نام دیا اور خود کو خلیفہ قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی بیعت کی دعوت دی۔
داعش نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے مخالفین کے سر قلم کرنے، آگ میں جلانے، سرقلم کرنے، سرعام مصلوب کرنے اور بیسیوں لوگوں کو قطار میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے سے دنیا بھر میں رعب و دبدبہ قائم کیا اور اس کی پہچان ہی سفاک گروہ کے طور پر قائم ہو گئی۔ مگر ظلم و بربریت پر قائم داعش کی یہ حکمرانی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
اگست 2014 میں داعش نے عراقی کردستان کی طرف پیش قدمی کی تو کردوں نے اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ کردوں کی جوانمردی نے عالمی طاقتوں کو متوجہ کیا اور امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کے اتحاد نے داعش کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری طرف داعش کے خلاف شامی افواج کی معاونت کے لیے روسی فضائیہ، ایران کے انقلابی گارڈز، لبنان کی حزب اللہ سمیت کئی شیعہ ملیشامیدان میں آئیں۔ شامی و عراقی فوجیوں، شامی باغیوں اور کرد پیشمرگہ کی مؤثر زمینی کارروائیوں نے ’دولت الاسلامیہ‘ کو انجام کی طرف دھکیل دیا۔ 2015 تک داعش اپنے زیر قبضہ بڑے علاقے سے محروم ہوچکی تھی۔ داعش کے خلاف یہ کاروائیاں 2017 تک جاری رہیں جس سے اس کی خودساختہ ریاست کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے زیر قبضہ تمام علاقے چھڑا لیے گئے۔

اس سے قطع نظر کہ داعش کے زیرقبضہ علاقے چھڑائے جاچکے ہیں‘ اقوام متحدہ کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق عراق اور شام میں اب بھی داعش کے ہزاروں جنگجو موجود ہیں۔ اس لیے خدشہ یہ ہے کہ داعش اسی طرح دوبارہ منظم ہوسکتی ہے جیسے 12-2011 میں عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد ہوئی تھی۔ یہ بات بھی مدِنظر رہے کہ امریکہ نے شام سے انخلا کے بعد گرفتار داعشی قیدوں کو کردوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اگر داعش کے جنگجو 2012 کی طرح جیلوں پر حملے کر کے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئے تو ان کی افرادی قوت دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سنگاپور کے اخبار  The Straits Times میں 5 فروری 2019 کو شائع ہونے والی پینٹاگون کی ایک رپورٹ کے مطابق خود امریکی حکام کا بھی اصرار ہے کہ اگر امریکی فوجیوں کے انخلا سے انسدادِ دہشتگردی کی کاروائیوں میں کمی آتی ہے تو داعش کو دوبارہ نمودار ہونے کے لیے محض چھ مہینے سے بھی کم وقت لگے گا۔ ایسے میں داعش کے خاتمے کا امریکی صدر کا دعویٰ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

نمایاں پوسٹ

کیا داعش کا خاتمہ ہو چکا ہے؟

تحریر: محمد ثناءاللہ طاہر شدت پسند تنظیم ’دولۃالاسلامیۃ فی العراق و الشام (داعش)‘ ایک وقت میں شمال مشرقی شام سے لیکر شامی و عراقی س...